میں دیر تلک کہیں سویا رہا
اک خواب جاں آنکھوں میں بسا کے
اس نیند کا خمار بھی عجب ہی رہا
ہر سمت بہاریں، ہر سمت خوشیاں
سب چاہنے والے میرے آس پاس
میری خواہش پہ مر مٹنے والے
میں مطمئین ہو کے سوتا ہی رہا
بڑا بھروسہ تھا احباب پہ مجھ کو
اک ہاتھ چھوٹتا اک ہاتھ سنبھالتا
میں ڈگمگاتا پر گرنے نہ پاتا
کٹھن سفر کے بعد بھی
پاؤں پہ آبلہ کوئی نہ ہوتا
یہی سوچتا رہا میں سوتے ہوئے
زمانے کا بوجھ کندھے پہ رکھ کے
میں سر اٹھا کے چلتا رہوں گا
کہ بہت کندھے ہیں سہارے کے لئے
مگر
جب آنکھ کھلی تو کیا دیکھا
میں اکیلا بے سائبان
نہ کوئی سہارا نہ کوئی شناسا
جو آس پاس تھے سب تماشائی
میں ٹوٹ کے جس کے قدموں میں گرا
سنبھالا نہیں بس ٹھوکر ماری
سنبھلنے کی کوشش خود ہی کی تو
اپنی ہی ٹھوکر سے گر پڑا میں
میرے اپنے وجود کا بوجھ ھی اتنا
نہ سر اٹھے نہ قدم بڑھیں
بچا ہوا ہے میرے پاس کیا
آ کے دیکھو اک بار ذرا
میرا خواب جاں ریزہ ریزہ
میری خواہشیں سب سلگتی ہوئیں
میرے ٹوٹے پر ہاتھوں میں ہیں
میری دم توڑتی حسرتیں
میرا خواب جاں، ریزہ ریزہ