میرا دل تو نہیں کر تا تھا
کہ میں
تیرے ساتھ جدائی ڈالوں
آ کے پردیس میں
میں بہت رویا
ٹکڑے ٹکڑے
میرا دل بھی ہوا یہاں
میں اپنی خوشی کے ساتھ
پردیس میں نہیں آیا تھا
بس مجھے
میری مجبوریاں لے آئ
پردیس میں
کر دیا الگ جب
مجھے اپنے ہی لوگوں نے
مجھے اپنوں سے
اب تو
بڑی مشکل سے گُزرتی ہیں
یہ جدائی والی راتیں بھی
میرا دل تو نہیں کر تا تھا
کہ میں
تیرے ساتھ جدائی ڈالوں
روتا ہوں اب میں پردیس میں بیٹھ کر
آتی ہیں وہ یادیں جو گزُاری اپنے دیس میں بیٹھ کر
زندگی جو گزاری نہ جا سکی ہم سےاپنے دیس میں
ذندگی ہم نے وہ زندگی گزاری ہے پردیس میں
میرا دل تو نہیں کر تا تھا
کہ میں
تیرے ساتھ جدائی ڈالوں
مسعود دُکھ پردیس والے جان نہ تارے اب
دل بھی ڈُوب گیا سوچوں کے کنارے اب
اب سوچ لیا ہے
باقی زندگی
اپنوں کے ساتھ گزرے گی جب
تو ختم ہو جائیں گے سارے غم
تمہارے پیار کی یادیں نہیں بھُولتے
کر کر یاد آنکھوں سے آنسو نہیں رُوکتے
میرا دل تو نہیں کر تا تھا
کہ میں
تیرے ساتھ جدائی ڈالوں