سستی ہے کتنی زندگی اب میرے شہر میں
محفوظ نہیں انساں خود اپنے ہی گھر میں
اک اک کی کیا تم کو روداد سناؤں
ہر نفس ہے بدحال آج اس نگر میں
آنکھیں نہیں ملاتے آپس میں آج لوگ
ہر کوئی ہے شرمندہ خود اپنی نظر میں
اپنی ہی چھت کے نیچے لٹ جاتے ہیں مکین
پہلے لٹا کرتے تھے لمبے سفر میں
نہ کرو تو مشکل، کرو تو آسان ہے کتنا
انسان کی جگہ، انتقام دفناؤ قبر میں
کوشش کرو پھر سے پھولے گا، پھلے گا
ہے جان ابھی باقی محبت کے شجر میں
سلیم اس کے آگے سبھی پھول زرد ہیں
کراچی ہے بہت سرخ آج دہر میں