میرا، میری ذات میں سودا ہوا
اور میں پھر بھی نہ شرمندہ ہوا
کیا سناؤں سرگزشتِ زندگی؟
اِک سرائے میں تھا، میں ٹھیرا ہوا
پاس تھا رِشتوں کا جس بستی میں عام
میں اس بستی میں بے رشتہ ہوا
اِک گلی سے جب سے رُوٹھن ہے مری
میں ہوں سارے شہر سے رُوٹھا ہوا
پنج شنبہ اور دُکانِ مے فروش
کیا بتاؤں کیسا ہنگامہ ہوا