منڈلا رہے ہیں سائے تیری صورت جاناں
میرا گھر صنم کدہ ہو گیا ہے
اسی بھیڑ بھاڑ میں ہر کسی کو اندیشہ جاں جانا
میرا گھر میری اماں ہو گیا ہے
رواں ظلمتوں کی اس نگری میں
پشیماں اک نادار ہو گیا ہے
ہر طرف ہنگامہ آرائی اور (یوکے) نیشنلٹی کا شور
ہائے کتنا مجبور آج کا انسان ہو گیا ہے
کسی کو غم کسی کو غمِ آشنا نہ ملا
تلاشِ جستجو میں معزور اک باپ ہو گیا ہے
بندگی خدا میں تیرے حصول کی دعا ہر پل
حسن شروع زندگی کا اک نیا باب ہو گیا ہے