میری راتوں کی نیندوں کے تاوان بنا رکھے ہیں
میری تعبیروں نے میرے خواب چرا رکھے ہیں
اب خاموشیوں میں مصروف ء سفر ہوں میں
لفظ میں نے سبھی اس کو سنا رکھے ہیں
کیسے ممکن ہے خطا ہو چال تیری
راز اپنے خود تجھ کو بتا رکھے ہیں
اناۓ ذات کا بجھا کے ہر اک شعلہ
دیپ ہم نے وفاؤں کے جلا رکھے ہیں
نشاں بھی میرے گوارہ نہیں ان کو
نام جن کے کبھی حروف ء دعا رکھے ہیں
اک تیری چاہ، اک تیری وفا کی خاطر
معیار اپنے ہم نے گرا رکھے ہیں
تجھ کو بتانے کے لئیے اپنی حقیقت
آنسو کئ خود میں چھپا رکھے ہیں
یہ ممکن ہی نہیں تو ملے نہ مجھ کو
ہم نے یونہی تو نهیں ہاتھ پھیلا رکھے ہیں
میں کہ منزل کی تلاش میں سرگرداں
واپسی کے سبھی رستے بھلا رکھے ہیں
اک درد سفر ہے حقیقت میں محبت عنبر
لوگوں نے تو بس افکار سجا رکھے ہیں