کیا وحشت ہے کہ سشہر و بستیاں ہیں ویراں
لاشے بھتیرے ہیں اور کمیاب ہیں انساں
خوں اسقدر ہے پھیلا ہر سو کہ اب تو
چرند و پرند بھی ہیں جیسے انگشت بدنداں
وُہ لاچاری کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
ذہن ماؤف، جسم ساکت، آنکھیں ویراں
کرتا ہے فصیل شہر سے قاضی یہ منا دی
ہے جاں عزیز تو کوئی بھی نہ آئے یہاں
اس قدر لاشے پڑے ہیں مرے گرد و نواح میں
کوئی دیکھے اگر مجھے تو ہو قاتل کا گماں
بارود کے دھویں میں کوئی سمت ملتی
شش و پنج میں ہیں جو بچ گئے ہیں جواں
ہاں کرتا تھا کبھی دل افروز شاعری معطم
چھین لیا حالت شہر نے اسکا حسن بیاں