میرے دل کی
اوقات ہی کیا ہے
تیرے سامنے
میرے بات ہی کیا ہے
تم تو اک ہی پل میں
توڑ دیتے ہو مجھے
تیرے سامنے
میری ذات ہی کیا ہے
تم گلاب کا پھول
کہتے ہو نا مجھے تو پھر
تیرے سامنے میرے
جذبات ہی کیا ہے
بہت سے ارمان ہے
جو اب دفن کرنے ہیں
تیرے سامنے
میری مات ہی کیا ہے