اے بہار گریزاں چلے آؤ کہ چمن کھل جائے
جلتے صحرا میں سایہ ہمیں بھی مل جائے
طلب سچی ہے تو اک دن وہ بھی کہیں
میری مسافت کو ستارے کی طرح مل جائے
طوق گلے میں سجا کے رکھتے ہیں ہم
جانے کب کوئی غم راہ میں ہمیں مل جائے
اسیر لوگوں کا تن کو سمیٹنا کیسا
جانے کب نظر جائے جگر جائے کہ دل جائے
سرکتے جا رہا ہے پہلو سے میرے وہ مظہر
سنبھالو ہم کو کہ کلیجہ نہ میرا ہل جائے