میری یادوں کا سفینہ ہے سلامت اب تک گو مری راہ میں حائل تھے سمندر کِتنے ندیم میرے جلو میں تھی نسلِ مستقبل مَیں صِرف ایک تھا اور بے شمار ہو کے چلا جس سے پوچھو، یہی کہتا ہے کہ مَیں زندہ ہوُں وقت کی قبر کا احساس کسی کو بھی نہیں