میری یاد میں تم گمُ سُم ہو جاو گے
خود اپنی گلی کا پتہ بُھول جاو گے
میرے ہی تصور میں تم ایسا کھو جاو گے
کوئی پکارے گا تم میری ہی باتیں دُہراو گے
میں دُور کھڑا تیری پرچھائی کو دیکھتا رہوں گا
اور تم کچھ پَل کے لیے مجھ سے خفا ہو جاو گے
اور میں تیری بکھری زُلفوں کو سَنواروں گا
اور تم شرما کے میرے گلے سے لگ جاو گے
اور پھر جب تم روُٹھ کر کہیں چلے جاو گے
اُس دن میں پھر تم سے یہی بات کہوں گا
مسعود
کسی روز تم کو بھی میری بہت یاد آۓ گی
اور پھر میری یاد میں تم گمُ سُم ہو جاو گے