میرےدلِ بیتاب پر بادل ہیں غم کے چھائے
ہو جیسے کوئی طائر پر غیض کے پھیلائے
جاتا ہوں میں عدم کو یاروں سے یہی کہتا
میرے وصال پر نہ آنسو کوئی بہائے
مرنے تو دو ہم کو پھر دیکھنا تم آ کر
صورت تیری ہوں گے ہم آنکھ میں سجائے
یہ کون دلربا ہے میرے قیاس میں جو
کر ے کوئے شرارت دھیرے سے مسکرائے
زندگی بھی اپنی گزری مثالِ آبلہ پا
مر کے بھی ہم نے زخم کچھ اور نئے کھائے
جس جا ملے تھے دونوں اجڑی ہے یوں عازم
جیسے خزاں چمن کو ہر بار ہے رلائے