اک نقش نا تمام ہے منزل میرے بغیر
موسم بہار کا بھی ہے بے گل میرے بغیر
یہ تازگی ۔ شگفتگی ۔ گفتار ۔ قہقہے
کتنی سجی ہے اب تیری محفل میرے بغیر
میں موج بحر وقت ہوں وسعت میری سرشت
درماندگی میں رہتے ہیں ساحل میرے بغیر
تم آج جدائی کے تصور سے ہو لرزاں
گزرے گا کس طرح سے تیرا کل میرے بغیر
شاید نہ ہو سکے تجھے اس درد کا ادراک
شاید نہ تڑپ پائے تیرا دل میرے بغیر
تب تب وہ حسیں لمحے تمہیں یاد آئیں گے
آنکھوں میں جب لگاؤ گے کاجل میرے بغیر