میرے تو غم کا قصہ ہی عجب ہے
محبت سے عداوت ہو گئی ہے
سرور زیست تھیں جو ساری یادیں
اب اذیت ہی اذیت بن گئی ہیں
بڑھا دیتی تھی جو وقار میرا
وہ وجہ اب ندامت بن گئی ہے
کتابوں کی فصیلیں گرد میرے
سکوں کا راستہ روکے کھڑی ہے
شعور زندگی کا کیا کروں میں
مجھے دنیا سے وحشت ہو رہی ہے
کرشمہ ساز نہیں ہیں لفظ میرے
اور راز اشتہاری ہو رہی ہے
تلخ سی اک حقیقت ذہن میں تھی
اب کاغذ پر عبارت ہو رہی ہے
میرے لوگوں کی خوشیاں اور ان کے سب معیار
کچھ میری بے قراری یوں بھی ذیادہ ہو رہی ہے
ارفع و اعلی ہوں ڈھب زندگی اور بعد اسکے
جہد کے نام پر بس دنیا داری ہو رہی ہے
ہر اک الجھاؤ جب سلجھا کے رکھ دوں
اجازت ہے اجل کو تب ہی آئے
میں وہ نہیں ہوں رب سے جو یہ کہدے
مصائب میں گھرا ہوں مجھے موت آہے
میرے انداز سے حیرت میں کیوں ہو
سکوں پا لینے کی یہی تو صورت رہ گئی ہے