میرے جنون شوق کا عالم ہی اور تھا
وہ ابتدائے عشق کا موسم ہی اور تھا
جس نے مرے شعور کو بخشا تھا اعتبار
وہ غم غم حیات نہ تھا غم ہی اور تھا
وہ لن ترانیاں نہ وہ لاف و گزاف تھا
وہ آ گیا تو بزم کا عالم ہی اور تھا
تہذیب نو نے موم کو پتھر بنا دیا
اک دن وہ تھا فسانۂ آدم ہی اور تھا
لذت شناس زیر غم عشق تھا یہ دل
لیکن جو اب کے بار ملا سم ہی اور تھا
شرح و بیاں سے اور الجھتا چلا گیا
اے ہم نشیں وہ قصۂ مبہم ہی اور تھا
پہلے بھی عرض حال یہ رویا ہے وہ مگر
کل رات اس کا گریۂ پیہم ہی اور تھا
خنجر کی دھار جس نے رگ جاں سے کاٹ دی
وہ اعتبار عظمت آدم ہی اور تھا
جابرؔ حریف گردش دوراں تھا ان دنوں
وہ تھا شریک حال تو دم خم ہی اور تھا