میرے خوابوں سے ہوکر ہراساں
میری نیند معدوم ہوئی جاتی ہے
تیری بے رخی سے عاجز ہوکر
یہ آنکھیں اشکبار ہوئی جاتی ہے
ہر شخص سے بیزار ہو کر
تیری ہر بات ذہن میں مقید ہوئی جاتی ہے
تیری وہ شوخیاں بدنام ہو کر
زمانے میں مشہور ہوئی جاتی ہے
تنہائ میں خود سے ہم کلام ہو کر
زندگی قید سے آزاد ہوئی جاتی ہے
لہجے کی تلخی سے مغموم ہو کر
زیست سے عروج لا تعلق ہوئی جاتی