میرے دل سے کیسے یہ ارمان نکلے
وہ غیروں کے بن کے جو مہمان نکلے
اسے کیا پتا ہجر کتنا ہے ظالم
بدن میرا ٹوٹے میری جان نکلے
نظر جب دوڑائی حریفوں کی جانب
تو اپنے ہی سارے مہربان نکلے
ہوا لے گئی ساری خوشبو اڑا کر
کہ گل سارے کتنے ہی نادان نکلے
انہیں اس زمانے نے کیوں نوچ ڈالا
خزاں سے جو بچ کر گلستان نکلے
تو بس کوچ کر اس نگر سے اے تنہا
یہاں بے وفا سارے انسان نکلے