میرے ہمنوا میرے ہمسفر
ان الجھنوں سے مجھے نکال دو
مدت سے میں کشمکش میں ہوں
ُان سوالوں سے مجھے نجاد دو
تیری خاموشی کے تماچے مار رہے ہیں مجھے
بے وجہ کے تشدد سے مجھے آرام دو
میری ُعمر بھر کی مسافتیں ہیں
مجھے اب تو منزل کا مجھے نام ونشان دو
سنو میری اجڑی ہوئی کشتی کو
چاہو تو سنوار دو یا طوفان میں ُاتار دو
سمجھ سکوں تو یہ شاعری میرا درد ہے
کبھی فرصت ملے تو ان لفظوں کو سمبھال دو
مجھے اتنے خستہ حالاتوں میں دیکھ کر
میرے زندہ رہنے پر مجھے تم بھی تو کوئی داد دو