مرے غموں کو گوارا نہیں خوشی میری
بس اک عذاب میں کٹتی ہے زندگی میری
صدائیں دینے کی عادت نہیں مجھے لیکن
تجھے بلاتی ہے ہر لمحہ خامشی میری
میں تجھ کو چاہ کے بھی تجھ کو پا نہیں سکتا
کبھی تو دیکھ لے آ کر یہ بے بسی میری
میں جام توڑ کے اب زہر پینے والا ہوں
نہ کام آئی مرے کچھ بھی بے خودی میری
مجھے زمانے کے انداز کوئی سکھلا دے
کہ راس آ نہ سکی مجھ کو سادگی میری