میرے مرنے سے شاید اُسے صبر آ جائے
یاربّ! میرا وقتِ قبر آ جائے
روح پرواز کر جائے جسم سے
جو آسماں سے دیکھوں ٗ وہ سحر آ جائے
کوئی تو بہانہ بن جائے موت کا
یا فلک سے اُتر کر زہر آ جائے
دیکھ لوں اب جو رہ گیا دیکھنے کو
دعا گو ہوں ٗ موت کا منظر آ جائے
کیا ہے گناہ ٗ کیوں تڑپتی ہیں روحیں؟
آخر کیا ہے اوپر ٗ نظر آ جائے
مَیں خواب میں اُس کو تسکین دے آؤں
اندھیر نگری سے میرا گزر آ جائے
شاید وہ یہی چاہتا ہے ٗ مَیں مر جاؤں
یہ سفر کاٹ کے دوسرا سفر آ جائے