اک میں ہی ملا تھا تجھے آزمانے کو
ورنہ کیا کیا نہ کیا میں نے تجھے پانے کو
بھری پڑی تھی یہ زمین حریفوں سے مرے
اک تو ہی رہ گیا تھا مجھ سے ٹکرانے کو
فیصلہ وہی اہم تھا زندگی بھر میں میری
وہ غلط جو ہوا اک عمر ہے اب پچھتانے کو
زندگی سے اکتائے تم ہو بدنام مجھ کو کیے جاتے ہو
ہوکے برہم یوں کہتی ہے شمع اک پروانے کو
تہی دست و نادم ہوں اپنی تمناؤں پر اطہر
میسر بھی نہیں چلو بھر ڈوب کے مرجانے کو