میں اپنے خواب کی تعبیر کس سے طلب کروں کہ
میدان میں اپنی اور ُاس کی قبر کو - سبز چادر میں ایک ساتھ دیکھا
جسم کیا میری روح تک کانپ ُاٹھی
جب ُاس کی نطر میں انجانا روپ دیکھا
یہ آندھیاں - یہ طوفان کب تھمے گئے آخر
اب تو اپنے وجود کو بہت ہارا دیکھا
وہ شخص جان سے بھی پیارا کیوں ہیں مجھے
جس نے کبھی نا میری طرف مڑ کر دیکھا
جلد باز نہیں میں - پر اب صبر نہیں ہوتا
اک مددت سے خدا کا - نہیں کوئی معجزہ دیکھا
رات بھر وہ برسات میں بھیگتا رہا لکی
مسکراتی آنکھوں کو - نہیں جس نے برستا دیکھا
طویل باتیں تو مجھے کرنی نہیں آتی
چہرہ دیکھنے والے نے - نہیں دل دھڑکنیں کا انداز دیکھا
ہواؤں میں خشبوں آ رہی ہیں کب سے
آج ہواوں میں ُاس کے آنے کا پتہ دیکھا