میں اپنے چہرے پر کئی حجاب لئے پھرتی ہوں
جو سوال ہیں ہی نہیں ان کے جواب لئے پھرتی ہوں
آنکھ کھلتی ہے تو ادراک مجھے ہوتا ہے
خواب در خواب میں ہی خواب لئے پھرتی ہوں
میں نے کیا کر دیا اور کیا نہیں، مجھے کیا پتا
محتسب ہوں، دوسروں کے حساب لئے پھرتی ہوں
جو حقیقت ہے اگر دیکھوں تو نظر آ جائے
تلخیلیاں طاق میں رکھ کر سراب لئے پھرتی ہوں
میری دنیا، میری خوشیوں کو نظر کس کی لگی
خود مجرم اور منصف، خودمیں اسباب لئےپھرتی ہوں
یہ زمانے کی وفائیں ہیں دم آخر کا دیا
میں سمجھتی تھی ہتھیلی پہ آفتاب لئے پھرتی ہوں
وہ رام رام کر کے گلے ملے تو چبھا پہلو میں خنجر
پتا چلا کہ منافق ہیں جو احباب لئے پھرتی ہوں
میں سچ سے نظریں چرا کر بھی تو جی سکتی ہوں
ناجانے کیوں ثوبیہ غم دنیا کے عذاب لئے پھرتی ہوں