میں اکثر سوچا کرتا ہوں
کچھ لوگ جو اکثر ملتے ہیں
وہ اپنے سے بھی لگتے ہیں
پر ہیں پھر بھی انجان بہت
پھر بار بار کیوں ملتے ہیں
میں اکثرسوچا کرتا ہوں
جیسے گزری ہوا کا جھونکا ہو
جیسے ماضی کی کچھ یادیں ہوں
جیسے شجر کے ایسے پتے ہوں
جو پت جھڑ میں گر جاتے ہیں
پھر یاد ہمیں کیوں آتے ہیں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
جیسے موسم ہو اک پیارا سا
اور دسمبر کی کچھ بوندیں ہوں
ان بوندوں میں کچھ یادیں
جو ساری رات مچلتی ہوں
کچھ لوگ پھر کیوں یاد آتے ہیں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
یادوں کے تپتے صحرا میں
کیوں چھاؤں ان ہی کی لگتی ہے
تھا محض خیال اپنے دل کا
اس چھاؤں میں بھی تھی دھوپ کڑک
دل پھر بھی انہیں کیوں چاہتا ہے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
اک گلشن سے جو گزر ہوا
گلاب تھے کچھ بکھرے بکھرے
اور مہک جو ان کی ایسی تھی
کچھ بیتے پل پھر یاد آئے
کیوں یاد وہ لمحے آئے تھے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
کچھ صبح کی ٹھنڈی فضا بھی تھی
کچھ پتوں پہ جو شبنم تھی
وہ موتی تھے دل گیر بہت
ست رنگی ان میں سورج کی
پھر کوئی ہمیں کیوں یاد آیا
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
جو چاند پہ اک دن نظر پڑی
اس چاند پہ اس کا عکس ملا
پر پلٹ کے جب دیکھا ہم نے
وہ چاند کا اپنا نور ہی تھا
پھر وہ نظر کیوں آئے تھے
میں اکثرسوچا کرتا ہوں
کیوں کوئی خفا ہو جاتا ہے
کیوں کیسے مننا پڑتا ہے
کچھ لوگ کیوں اچھے لگتے ہیں
پر حمزہ وہ اپنے ہیں ہوتے
پھر یاد ہمیں کیوں آتے ہیں
میں اکثرسوچا کرتا ہوں