میں ایک تازہ غزل روز گنگناتی ہوں
اداس شام کو اکثر گلے لگاتی ہوں
تری گلی سے گزرتی ہوں اجنبی بن کر
میں اپنے حال پہ ہر وقت مسکراتی ہوں
جو شعر لکھتی ہوں تیرے لیے اداسی میں
وہی تو شعر میں دنیا کو پھر سناتی ہوں
یہ اضطرابی یہ بیتابی میری خاطر ہے
میں اپنے دل کو جدائی میں بھی لبھاتی ہوں
کتاب کھول کے رکھتی ہوں تیری یادوں کی
ہر ایک لفظ پہ کچھ اشک بھی بہاتی ہوں
فقط نہیں ہے قسمت میں اہتمامِ طرب
یہ جشنِ غم تو میں یہاں مناتی ہوں