میں بُھول گیا ہوں اسے یہ بات نہیں
یہ بھی بات الگ ہے اس سے ملاقات نہیں
کتنی یہ بجھی شام ہے چھائی ہے اُداسی
کس طور کہا جائے کہ یہ رات نہیں
اِس شخص کا اقرارِ محبت ہے مجھے یاد
وہ بُھول گیا ہے تو چلو کوئی بات نہیں
آنسو میرے ٹھہرے ہیں ٹھہرا ہے میرا دل
پہلی سی وہ اُمڈی ہوئی برسات نہیں
ملنے کو تو مسعود سے ملتے ہیں ابھی تک
ملنے میں مگر پہلی سی وہ بات نہیں