پھر کیوں ڈستی ہو
بن کے ناگن
عورت ہی کی خوشیوں کو
عورت ہی کی امنگوں کو
عورت ہی کی خواہشوں کو
میں بھی اک عورت ہوں تو بھی اک عورت ہے
پھر کیوں برباد کرتی ہو
عورت ہی کے سکھ چین کو
عورت ہی کے گھر بار کو
میں بھی اک عورت ہوں تو بھی اک عورت ہے
پھر کیوں دیتی ہو
آنکھ میں آنسو
دل کے درد
جھولی میں کانٹے
میں بھی اک عورت ہوں تو بھی اک عورت ہے
پھر کیوں چھین لیتی ہو
لبوں سے ہنسی
دل کی خوشی
من کی شانتی
میں بھی اک عورت ہوں تو بھی اک عورت ہے