نہ ٹوٹ کے مجھے پیار کر میں مہمان ہوں دو دن کا
نہ عشق میں خود کو گرفتار کو میں مہمان ہوں دو دن کا
میری منزل ہے یہ نہ راستہ تجھے خدا کا ہے واسطہ
میری باتوں کا اعتبار کر میں مہمان ہوں دو دن کا
بازوؤں پہ سر رکھ کوئی سلائے گا نہ شرارتوں سے بہلا ئے گا
نادان صنم خود کو سمجھدار کر میں مہمان ہوں دو دن کا
پردیسی ہوں پردیس میرا نصیب ہے ہمارا بچھڑنا بہت قریب ہے
نہ صلیب ہجر پہ خود کو سوار کر میں مہمان ہوں دو دن کا
میں بے وفا نہیں مگر مجبوری ہے تیرا شہر چھوڑنا بہت ضروری ہے
پیارے تو ضد بھی چاہے ہزار کر میں مہمان ہوں دو دن کا
جاتے جاتے کوئی انعام دے مجھے زہر دے یا جام دے
مجھے اتنا تو قرض دار کر میں مہمان ہوں دو دن کا
یہ آخری اپنا میل ہے پھر ملن ہو نہ ہو تقدیر کا کھیل ہے
جی بھر کے امتیاز کا دیدار کر میں مہمان ہوں دو دن کا