نہ دل ہے شاد نہ آنکھوں میں خواب رہتے ہیں
تو ان میں اور ترے اضطراب رہتے ہیں
میں تیرے حسن کو سوچوں تو شعر کہتا ہوں
مرے سخن میں کئی ماہتاب ریتے ہیں
ہر ایک سمت اندھیرے ہیں شام وحشت کے
کیوں تیرے روئے حسں پر نقاب رہتے ہیں ؟
سلگ رہی ہے سمن بارشوں کے موسم میں
بہار میں بھی پریشاں گلاب رہتے ہیں
کسی بھی شہر میں جاؤں ، کسی گلی میں رکوں
ترے زمانے مرے ہم رکاب رہتے ہیں
سنو گے میری مسافت کی داستاں کب تک
مقام رنج ابھی بے حساب رہتے ہیں
بسر ہو کاش کسی خواب ہی میں عمر تمام
حقیقتوں میں تو زاہد عذاب رہتے ہیں