میں جو ٹوٹی ہوں تو ٹکڑوں میں بٹ گئی شائید
بس اسکی الجھی ہوئی باتوں میں کھو گئی شائید
یہ تو میرا درد ہے خود ہی سہنا ہے اسے
اب تو روح تک میں رچ گیا ہے شائید
کیسے بھول جاؤں اسے میرے مالک
اب کے تو میرے سوکھوں میں بھی آگیا شائید
اپنی انا اپنی ذات پر جو ناز تھا مجھے
اسی ناز کو اپنے پیروں تلے رونڈھ گیا شائید
ہر اک لفظ بنتا ہے اک درد سہ کر
واس سے بھی ہے بے خبر شائید
سبھی دن خواب و خیال ہوئے
آنکھوں میں تو اب آنسو ہی رہ گے شائید
میری تو شام پر رات کے سائے منڈلاتے ہیں
ساری صبحیں کہیں گم ہو گئی شائید