آج بہت دیر یولہی
اپنے ہاتھوں کو دیکھتی رہی
کہاں کہان پر ہیں تیرا ساتھ
نادان بچے کی
طرح پوچھتی رہی
ہوا کے جھونکے نے
دل بیقرار کر دیا
میں تیرا پتاء
ہوا سے پوچھتی رہی
اک تارا فلک پر
کہاں سے نمودار ہوا
میں کبھی خود کو
کبھی آسمان کو دیکھتی رہی
بجھ چلے ہیں اب تو
میری امیدوں کے چراغ
میری آنکھیں پھر بھی
تیرا راستہ دیکھتی رہی
میرے لب چپ اور
میری دعائیں
تیرا نام ڈھونڈتی رہی
جفاء کی انتہا
تم کیسے کہتے ہو
تم چھوڑ گئے تلاطم میں
اور میں خاموش ڈوبتی رہی