میں لاکھ کہوں میں بھول گیا ان بھولی بسری یادوں کو
ان بھیگی برساتعوں کو ان گرم سرد راتوں کو
ان خاموش نظاروں کو ان مدہوش ملاقاتوں کو
ان دکھ بھری باتوں کو ان سارے رشتوں ناتوں کو
ان مہندی لگے ہاتوں کو ان ڈولی باراتوں کو
ان سسکتی سانسوں کو ان بہکتی آنکھوں کو
ان مہکتے گجروں کو ان چہکتے گالوں کو
ان گھنے لمبے بالوں کو ان دگمگاتی چالوں کو
ان روتی ہوئی گلیوں کو ان غمگین خیالوں کو
میں لاکھ کہوں میں بھول گیا ان بھولی بسری یادوں کو