میں مسکرا رہا ہوں خود ہی آہیں بھر رہا ہوں
دو مختلف ارادے مانا پھر کیوں فریاد کر رہا ہوں
مدت ہوئی سفینے ساحل پے آچکے ہیں
طلاطم خیز لہروں سے کیوں پھر ڈر رہا ہوں
تیری ہر ادا کے صدقے تیری بات پے جاں قرباں
ایماں لایا تجھ پے تو کر اس میں کیا کفر رہا ہوں
غم میں کیا الجھائے گا جاں سے پیارے
تیرے کیسوں میں پھنس کے خود ہی مر رہا ہوں
اے خزاں تیرے رحم کرم کی نہیں مجھے ضرورت
پھول ہوں خودی کا میں خود ہی جل بکھر رہا ہوں
وہ شام کے مسافر راہوں میں آپڑیں ہیں
زہےنصیب تیرے میں کہاں کہاں سے گزر رہا ہوں
وعدہ کرو جی ارشد نکال لاؤ گے مجھے ہر حال میں
آنکھوں کی ان کےسمندر میں اتر رہا ہوں