میں نے آخر پوچھ ہی ڈالا
کہ کہدو،چھوڑ دوگے تو نہیں
زندگی کے راست میں،تم کبھی
اپنی نظریں میری نظروں سے ملائیں، پھر کہا
کیسے چھوڑوں گا تمہیں جانم
بتاوٓ تو ذرا
تم تو میری زندگی ہو،جان ہو
پھر اچانک یوں ہوا
زندگی کے راستے سونے ہوئے
وحشتوں کے درمیاں وہ چھوڑ کر چلتا بنا
آس کے سب بندھنوں کو توڑ کر
اک پیامِ رخصتی تھریر کر کے دے گیا
کھیل ہیں یہ موسموں کے
اور بدلنا موسموں کی عین فطرت ہے