پانیوں پر
میں اشک لکھنے چلا تھا
دیدہءخوں دیکھ کر
ہر بوند
ہوا کے سفر بر نکل گئی
منصف کے پاس گیا
شاہ کی مجبوریوں میں
وہ جکڑا ہوا تھا
سوچا
پانیوں کی بےمروتی کا
فتوی ہی لے لیتا ہوں
ملاں شاہ کے دستر خوان پر
مدہوش پڑا ہوا تھا
دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے
سوچا
شاید یہاں داد رسی کا
کوئی سامان ہو جائے گا
وہ بچارہ تو
پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا
کیا کرتا کدھر کو جاتا
دل دروازہ کھلا
خدا جو میرے قریب تھا
بولا
کتنے عجیب ہو تم بھی
کیا میں کافی نہیں
جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو
میرے پاس آؤ
ادھر ادھر نہ جاؤ
میری آغوش میں
تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی
ہر بوند
رشک لعل فردوس بریں ہو گی
اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا
میں نے دیکھا
شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں
بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی