میں پہلی بار اِس جنگل سے گزرا تھا تو سب ایسا نہیں تھا
یہاں کچھ کچھ پرندے بولنے والے تھے ، سناٹا نہیں تھا
محبت نے مجھے قید ِ عناصر سے بہت آگے بُلایا
مگر میں اپنی مٹی کے شکنجے سے نکل پایا نہیں تھا
اِسی نقارخانے سے مجھے تربیت ِ فن مل رہی تھی
میں اپنے شعر کا ڈنکا بجانا سیکھ کر آیا نہیں تھا
یہ تُو نے کس لیے آنچل پہ تازہ خواہشوں کے پھول کاڑھے
ترے پلو سے کیا باندھا ہُوا وہ ریشمی وعدہ نہیں تھا
بقدر ِ آرزو میرا سمندر سے تعلق تھا نہ لیکن
میں اُتھلے پانیوں سے اپنا رشتہ جوڑنے والا نہیں تھا
مری تقدیر میں کُچھ سرفرازی کے ہرے لمحے لکھے تھے
نمو پاتے ہی جو پامال ہو جائے میں وہ سبزہ نہیں تھا
خموشی ، برف کی مانند ہونٹوں پر جمی رہتی تھی یاور
گلابی لفظ کے باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا