میں کے پر شور سمندر تھے میرے پاؤں میں
اب کے ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاوں میں
نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں
دن کے ڈھلتے ہی اجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
جس طرح شام کو بازار کسی گاؤں میں
چاک دل ہی کہ نہ سہی، زخم کی توہین نہ کر
ایسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں
زکر اس غیرت مریم کا جب آتا ہے فراز
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیاؤں میں