نئی منزل ہے جنوں کی اور پرانے جذبے
راہ ہے پر خطر تو کامل ہیں سہانے جذبے
کیسے بے ربط کہیں اوج کہیں پستی ہے
کبھی باغی، کہیں حالات پہ قانع جذبے
باغِ دل کو ہے سجایا تمھاری محفل سے
اک صرف تجھ کو سرِ بزم دکھانے جذبے
پھر جو دیکھی ترے رخسار کی لالی میں نے
بجھ نہ پائے جو جلے میرے پرانے جذبے
شامِ غربت میں امید بندھاتے ہیں یہی
کچھ دیئے اور میرے دل کے خزانے، جذبے
گر ہو احسن تمھیں امید سحر ہونے کی
سب لٹا کر بھی بچا لینا سہانے جذبے