لوگ سیانے ہوگئے ہیں
زندگی کی تپتی دھوپ میں
جل کے کندن ہوگئے ہیں
وقت کی رفتار ماپتے ہیں
اڑان بھرتے ہیں.... پنچھیوں کی طرح
اور منزل منزل رواں دواں ہیں
مگر جذبات کی تند رو میں
بہہ جاتے ہیں....معصوم بچوں کی طرح
اور عشق کی تند آگ میں
جھلس جانے کو بھی تیار بیٹھے ہیں
مقدس پاک رشتوں کی
اب بھی کی جاتی ہے قدردانی
شمع جلے تو اب بھی پروانہ
چلا آتا ہے جاں ہتھیلی پہ لئے
ماں کو ہے بچے سے اب بھی اسی قدر پیار
اور باپ کی شفقت کی بھی ہے وہی بھرمار
مگر معیار بدل گئے ہیں
قول و قرار بدل گئے ہیں
قدر نوع انسانی میں ہے گراوٹ بے تحاشہ
لگا ہے انساں کے ہاتھوں انساں کی تذلیل کا تماشہ
دولت میں تلتی ہے" قدر " نوع انساں کی
بازار میں بکتے ہیں ہنر اور ہنرمند
تہذیب کے معیار الگ ہوگئے ہیں
دین و دنیا کے اطوار الگ ہوگئے ہیں
کہیں مٹی میں ملتے ہیں
روز اجل میں انساں
اور کہیں پہ جانور بھی نہیں سہ پاتے
سلوک نا روا
کہیں پہ آدمی روٹی کو ترستا ہے
اور کہیں پہ کتا بھی مکھن کھا کے سوتا ہے
خدا جانے" یہ " معیار کیوں پنپتے ہیں
سہ پاتی ہے قدرت کیونکر یہ ناروا اطوار