رات سنسان ہے
بوجھل ہیں فضا کی سانسیں
آنکھوں میں چبھتی ہے تاروں کی چمک
ذہن سلگتا ہے تنہائی میں
روح پر چھاگئے ہیں غموں کے سائے
دل بضد ہے کہ تم آؤ تسلی دینے
میری کوشش ہے کہ کمبخت کو نیند آئے
تم میرے پاس نہیں پھر بھی
سحر ہونے تک
تیری ہر سانس میرے جسم کو چھو کر گزرے
تیری خوشبو سے معطر‘ لمحہ لمحہ میرا گزرے
تیرے دیدار کی شبنم‘ قطرہ قطرہ مجھ پر برسے