وفا کی کن راہوں سے گزرا ہوں وہ رہنے دے
کون رہبر تھا کون تھا رہزن وہ رہنے دے
میں اکیلا تھا کارواں میں اک بت کا پجاری
اور کتنے ملّا تھے واعظ تھے زاہد تھے وہ رہنے دے
چیخیں دور سے سنتا تھا اپنے پاؤں کے چھالو کی
کس جنوں میں چلا تھا جانب منزل وہ رہنے دے
سورج اک چراغ اور سمندر تھا اک قطرہ
اس چاہت میں کیا تھا اعجازنظر وہ رہنے دے
کؤے بتاں کا وہ باسی جو ملتا تو میں کہتا
مجھے مجھ میں تجھ میں یا تیرے کوچے میں رہنے دے
مبھ کو چھوے گا گلشن تو الزام تیرے سر ہو گا
تو مجھے حالات کے ہاتھوں ہی بکھر جانے دے