نفرتوں کے جنگل میں کہاں
محبت کو ڈھونڈو گے
یہ وہ فاختہ ہے
جو ڈری ڈری سی رہتی ہے
چھپی اپنے آشیانے میں
جس کے پر کاٹ دئے صیاد ( انسان ) نے
اپنے ہاتھوں سے
اور پھر رہتا ہے اس کوشش میں
اور کوشش بھی بے سود
اخلاص سے عاری
امید سے خالی
یہ لگن
کہ اڑے وہ فاختہ گھر گھر
آشیانہ آشیانہ
محبت کا پیغام دے