نرم تاروں کی روشنی میں ہم
بھیگے بیٹھے ہیں چاندنی میں ہم
سن کے سازِ فضا ہوئے بیخود
کھو گئے اس کی دلکشی میں ہم
بھول بیٹھے ہر ایک مقصد کو
کھو گئے کیسی زندگی میں ہم
دیکھتے ہیں سنگھار کی صورت
آج بھی تیری سادگی میں ہم
جانے کیا کہہ گئے مرے ہمدم
آج اپنی ہی بیخودی میں ہم
کھو دیا تھا کہیں وجود اپنا
خود کو ڈھونڈیں گے شاعری میں ہم
ہم نے کھویا تھا جیس جگہ خود کو
اب نہ جائیں گے اس گلی میں ہم
تیری باتوں کی چاشنی میں ہم
جانے کیونکر سلگتے رہتے ہیں
ٹھنڈی ٹھنڈی سی چاندنی میں ہم
کھیل ہی کھیل میں نہ جاں جائے
کھو نہ دیں دل ہی دل لگی میں ہم
جانے کب لوٹ کر وہ آئیں گے
راہ تکتے ہیں بے بسی میں ہم
ان کو احساس تک نہ ہو پایا
لٹ گئے اپنی سادگی میں ہم
کاش ہم لوگ یہ سمجھ پائیں
پائیں گے خود کو بندگی میں ہم
ساتھ ہو گا نہ جب کوئی اپنا
روئیں گے اپنی بے بسی میں ہم