پیدا ہوئے وہ دونوں اسی ایک ڈال پہ
گلاب کی کلی
اور اِک
اس کا محافظ
اصل ہے ان کی ایک پر
زمین و آسماں
ایک کے حصول کا زمانہ ہے طالب
حسین سی صورت شکل
دل پسند مہک
جودیکھ لے اگر کوئی تو دیکھتا جائے
چھوئے تو پہار سے
توڑے جو ڈال سے تو بڑی احتیاط سے
سنبھال کے رکھے کسی کے واسطے تحفہ
بنائے ذات کی زینت
شفا ہے یہ بدن کی اور ہے روح کی تسکین
بکھرے بھی اگر توٹ کر تو زینتِ قبر
اور دوسر
کہ دیکھنا گوارا نہیں ہے
قریب جو آیا کوئی غلطی سے ہی سہی
ہٹ کر گزر گی
دامن کو بچا کر
جو چھو گیا کوئی
تو گالیاں ملیں
تحقیر و نفرتیں
کوسنے دھتکار
حالانکہ کانٹا کرتا ہے کلی کی حفاظت
بنا دیا گیا ہے اذیت کی علامت
گو کہ خود خالق نہیں یہ اپنی ذات ک
نہ ہی
خواہش تھی یہ اس کی
پر کیا کرے کانٹ
کہ
یہی ہے حقیقت
یہی تو ہے قسمت
یہی تو ہے نصیب ۔۔۔