سمندر کی وسعتوں میں گہر نظر آتے ہیں
اب تو خواب بھی ادھورے نظر آتے ہیں
ہم کو اس دور کا انساں نہ سمجھنا دیکھو
ہم منزل پر بھی مسافتوں میں نظر آتے ہیں
یہ تراش جو پتھر کی لکیروں میں ہے بند
یہ بھی تو زیست کی گردش میں نظر آتے ہیں
مسخر کر لیا ہے آسماں کو ہم نے
اب تو اور بھی دروبام نظر آتے ہیں
ہم زہر تماشہ ہیں کہ حالا ت تماشہ
ہم خود اک آبلہ پا سے نظر آتے ہیں