نظر مِلا کے زرا دیکھ مت جُھکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اِک ستارہ ہے جانے کہاں گرا ہو گا
خلا میں ڈھونڈ رہی ہیں نجانے کیا آنکھیں
غمِ حیات نے فُرصت نہ دی ٹھہرنے کی
پکارتی ہی رہی ہیں مجھے سدا آنکھیں
یہ اُس کا طرزِ تخاطب بھی خوب ہے محسن
رُکا رُکا سا تبّسم، خفا خفا آنکھیں