نظر میں تاب ہی کم ہے کہ روشنی کم ہے
بصارتوں کا بھرم ہے کہ روشنی کم ہے
گہن لگا دیا سورج کو پہلی نسلوں نے
یہ میری نسل کا غم ہے کہ روشنی کم ہے
جو شہر بھر کے چراغ، اپنے گھر جلاتا ہے
اُسی کے در پہ رقم ہے کہ روشنی کم ہے
مہیب اندھیروں میں دب کر کہیں نہ رہ جائے
خبر بہت ہی اہم ہے کہ روشنی کم ہے
تحیّرات میں گُم ہوں میں کیا کہوں اس کو
گمانِ ہست و عدم ہے کہ روشنی کم ہے
نہ جانے کس لیے دھندلا رہا ہے ہر چہرہ
یہ میرا آخری دم ہے کہ روشنی کم ہے
ہر ایک آنکھ اجالے کی راہ تکتی ہے
نظر نظر کا الم ہے کہ روشنی کم ہے
کرے گی فیصلہ شمعِ سخنورِ دوراں
سیاہ رات میں دم ہے کہ روشنی کم ہے
میں ٹمٹماتا ہُوا آخری ستارہ ہوں
یہ روشنی کی قسم ہے کہ روشنی کم ہے
کھلے تو کیسے کھلے تیرگی میں وَرۡد کوئی
کلی کلی پہ ستم ہے کہ روشنی کم ہے