نظر کو نظر کی نظر ہوگئی ہے
دو اِس لیے بے اثر ہو گئی ہے
جہاں بے خودی میں اضافہ ہوا ہے
محبّت وہی معتبر ہو گی ہے
ابھی میرے خوابوں کی معراج ہوتی
کہا کس نے اُٹّھو ! سحر ہو گئی ہے
کوئی اور تدبیر تو ہی بتا دے
اگر اِلتجا میں کسر ہو گئی ہے
یقینا تمہیں کچھ کہا ہے کسی نے
جبیں کیوں پسینے سے تر ہو گئی ہے
مری زندگی کا فسانہ نہ پوچھو
شبِ غم شریکِ سفر ہو گئی ہے
ابھی ہم نے گھر میں چراغاں کیا تھا
ہواؤں کو کیسے خبر ہو گئی ہے