سنو لڑکی
ذرا اک بات کہنی ہے
سنو لڑکی.......!ذرا ٹھہرو
کہ آگے راستہ دشوار ہے
اور.....تمہاری عمر ہے کچی
سنبھلنا ہے ابھی
جانا نہیں ان انجان رستوں پر
کہ جنکی کوئ بھی منزل نہیں ہوتی..
ابھی آنکھوں میں کوئ بھی
ادھورے خواب نہ رکھنا
سنو لڑکی
ابھی تم نہ الجھنا
عشق کی دشوار جھاڑی میں
کہیں دامن کو تار تار،نہ کردے
تمہاری معصوم خوشیوں کا
کہیں یہ خون نہ کردے
ابھی رکھنا نہ سوکھے پھول
تم اپنی کتابوں میں
نہ پڑھنا شاعری میں
فراز اور فیض کی غزلیں
کہ یہ بھی وہی دنیا دکھاتے ہیں
پرانے درد کچھ
ڈھلتی شام کے سائے کے ساتھ
کبھی رستے ہیں آنکھوں سے
کبھی دل کو جلاتے ہیں
ابھی چھوٹی ہوتم
تمہاری عمر بھی کلیوں کی جتنی
سنو تم گڑیوں سے کھیلو
محبت زخم دیتی ہے
ہر اک موسم
ہر اک لمحہ
نیا اک درد دیتا ہے
ابھی ہنسنے کے دن ہیں
سو اس سے دور ہی رہنا
میری باتیں
کہیں تم بھول نہ جانا
بہت نادان ہو کیونکہ
تھوڑا وقت دو خود کو
اور تھوڑی سی توجہ بس
بھول نہ جانا
سمجھ جانا
سنو لڑکی