کہتے ہیں کہ ماریں گئے
کہتے ہیں کہ چھوڑیں گئے
سوچتے ہیں ملیں گئے نہیں
بندھن سارے توڑیں گئے
نفرت جب کسی سے ہو
تو ایسا سوچا جاتا ہے
خیالوں خیالوں میں ہی تو
منہ کسی کا نوچا جاتا ہے
لیکن جب نفرت خود سے ہو
تو آدمی کیا کریں
بزدل بھی بلا کا ہو
کیسے جئے اور کیسے مرے
جو خود سے نفرت کرتا ہو
اور مرنے سے بھی ڈرتا ہو
روز روز وہ مرتا ہے
مرنے کی دعا پھر کرتا ہے
پھندا خیالوں میں بناتا ہے
روز سولی پھر چڑھتا ہے
دل میں پھر ملال کرئے
جواب نہیں پر سوال کرئے