نفرت
Poet: kanwal naveed By: kanwal naveed, karachiکہتے ہیں کہ ماریں گئے
کہتے ہیں کہ چھوڑیں گئے
سوچتے ہیں ملیں گئے نہیں
بندھن سارے توڑیں گئے
نفرت جب کسی سے ہو
تو ایسا سوچا جاتا ہے
خیالوں خیالوں میں ہی تو
منہ کسی کا نوچا جاتا ہے
لیکن جب نفرت خود سے ہو
تو آدمی کیا کریں
بزدل بھی بلا کا ہو
کیسے جئے اور کیسے مرے
جو خود سے نفرت کرتا ہو
اور مرنے سے بھی ڈرتا ہو
روز روز وہ مرتا ہے
مرنے کی دعا پھر کرتا ہے
پھندا خیالوں میں بناتا ہے
روز سولی پھر چڑھتا ہے
دل میں پھر ملال کرئے
جواب نہیں پر سوال کرئے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






